*سی پیک کا سرچشمہ گوادر مسلسل احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے، لشکری رئیسانی*
*کوئٹہ:سینئرسیاستدان و سابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کہا ہے کہ حکمران بلوچستان کو نہیں اس کے وسائل کو ملک کا مستقبل سمجھتے ہیں، سی پیک کا سرچشمہ گوادر مسلسل احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے،بلوچستان کے بچوں کامستقبل کئی دہائیوں سے تاریک کردیا گیا ہے،باشعور سیاسی کارکن اور صحافی صوبے کو بحرانوں سے نکالنے اور ریکوڈک کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ پریس کلب کے دورے اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد دینے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہی۔اس موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار، کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند، جنرل سیکرٹری بنارس خان، بی یو جے کے صدر عرفان سعید، جنرل سیکرٹری منظور بلوچ، سینئر صحافی و کوئٹہ پریس کلب کے سابق صدر رضاء الرحمن سمیت کوئٹہ پریس کلب اور بی یوجے کے دیگر عہدیدار بھی موجود تھے، نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے بی یو جے کے انتخابات میں جرنلسٹس پینل کو کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی نومنتخب عہدیدار جو جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے ہیں وہ صحافت کے شعبے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے، انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان بلیک آوٹ کی حالت سے گزررہا ہے میڈیا میں بھی بلوچستان بلیک آ?ٹ ہے، پاکستان کے باقی صوبوں میں آئین پر کچھ نہ کچھ عمل ہوتا ہے مگر بلوچستان میں انسانی حقوق کے آرٹیکل پرعمل نہیں کیا جاتا، یہاں کے اکثر صحافی بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ کھل کر صوبے کے مسائل اور صوبے کو درپیش حالات کو اجاگر نہیں کرپاتے، تاہم سوشل میڈیا نے کسی حد تک اچھا کردار ادا کیا ہے وہ آواز جو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سے نہیں اٹھتی سوشل میڈیا پراٹھ رہی ہے بشرطیکہ سوشل میڈیا میں سنجیدگی سے کام کیا جائے، انہوں نے کہا کہ جب پاکستان کے حکمران کہتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ جب ہمارا حال ہمارے کنٹرول میں نہیں اورجس حال میں ہم بدحالی، بحران، ذہنی اذیت، معاشی بدحالی اور بیروزگاری سے گزررہے ہیں تو مستقبل کیسے ہوگا، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکمران ملک کا مستقبل ہمارے وسائل کو کہتے ہیں حکمران گوادرکوسی پیک کاسرچشمہ کہتے ہیں تو وہ مسلسل احتجاج کامرکزبناہواہے یا مستقبل یہ ہے کہ حکمرانوں جنہوں نے پچھلے 73سال میں قرضہ لے کر ملک کے وسائل کولوٹااب ان کوشاید دنیامیں لوگوں نے قرض دینابھی بندکردیا اب جب وہ کہتے ہیں بلوچستان ہمارامستقبل ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ریکوڈک کواپنامستقبل سمجھتے ہیں اورراتوں رات پارٹیاں بناکران کو ایجنڈا دیاجاتا ہے ریکوڈک کے وسائل حکمرانوں کے بچوں کے مستقبل کو سنوار نے انکونوکریاں دلانے اور لندن، یورپ اوردیگرممالک بھیجنے کے لئے استعمال کرنا ہے، بلوچستان کے بچوں کامستقبل کئی دہائیوں سے تاریک کردیا گیا ہے، یہاں تعلیم کی سہولیات نہیں مگر جب ہمارے بچے دیگر صوبوں میں بھی جاتے ہیں وہاں بھی ان کیساتھ زیادتی اور ناانصافیاں ہوتی ہیں اور اس قسم کا رویہ روارکھا جاتا ہے کہ بلوچستان کے بچے وہاں پر خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت سیاسی نورا کشتی کے دور سے گزر رہے ہیں کہا جارہا ہے کہ ریکوڈک میں پچاس فیصد حصہ بلوچستان اور پچاس فیصد وفاق کا ہوگا جیسے پہلے سوئی گیس کی بات ہوتی تھی اورگوادرکے بارے میں بھی یہی بات کی جاتی تھی آج گوادراحتجاج کامرکزبناہواہے، وہاں کے مچھیروں سے ان کاآبائی روزگارکاطریقہ چھیناجارہا ہے،ریکوڈک کے حوالے سے جونیاسیاسی ڈرامہ ہورہا ہے بلوچستان کا ہرنوجوان باشعورسیاسی کارکن جواجتماعی مفاد کیلئے جدوجہدکرتاہے ہرصحافی جواپنے حال اورمستقبل کوبلوچستان کیساتھ منسلک سمجھتاہے کافرض بنتاہے کہ وہ صوبے کواس بحران سے نکالنے اورریکوڈک کو بچانے کیلئے اجتماعی اورانفرادی کرداراداکرے،انہوں نے امید ظاہر کی کہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی نئی کابینہ صوبے کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھائے گی۔*