خدابادان گرلز ڈگری کالج تعلیم کی روشنی کا چراغ راجی راہشون فرزند بلوچستان واجہ میر اسد اللہ بلوچ کا مرہونِ منت ہے
تحریر صدام میروانی
بلوچستان کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں تعلیم کی شمع جلانا ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے، لیکن جب وژن رکھنے والے رہنما میدان میں آتے ہیں تو ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ راجی راہشون، فرزند بلوچستان، واجہ میر اسد اللہ بلوچ انہی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے علم کی طاقت کو پہچانا اور اپنی دور اندیش قیادت میں خدابادان کے علاقے میں گرلز ڈگری کالج کی بنیاد رکھی۔واجہ میر اسد اللہ بلوچ کے دور اقتدار میں منظور ہونے والا خدابادان گرلز ڈگری کالج ایک انقلابی قدم تھا۔ بلوچستان حکومت سے تقریباً 17 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والا یہ عظیم تعلیمی ادارہ نہ صرف خدابادان بلکہ تسپ، گرمکان، وشبود، پنجگور اور دیگر قریبی علاقوں کی بچیوں کے لیے امید کی کرن بن کر ابھرا ہے۔
اس سے قبل، ان علاقوں کی بچیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے یا تو گھر بیٹھنا پڑتا تھا یا بہت دور کے علاقوں کا رخ کرنا پڑتا تھا، جو کہ اکثر خاندانوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ لیکن جب خدابادان گرلز ڈگری کالج کا قیام عمل میں آیا تو مقامی بچیوں کو گھر کے قریب ہی ایک ایسا ادارہ میسر آ گیا جہاں وہ باعزت طریقے سے تعلیم حاصل کر سکتی تھیں۔یہ کالج جدید طرز پر بنایا گیا ہے۔ کشادہ اور ہوادار کلاس رومز، جدید سائنس لیبارٹریز، لائبریری، اور کمپیوٹر رومز جیسے سہولیات اس ادارے کو ایک معیاری تعلیمی مرکز بناتے ہیں۔ یہاں صرف تعلیمی سرگرمیوں پر ہی زور نہیں دیا جاتا بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی بھرپور اہمیت دی جاتی ہے تاکہ طالبات کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت بھی بہتر انداز میں ہو سکے۔کالج میں زیر تعلیم سینکڑوں بچیاں نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ صوبائی سطح پر بھی مختلف تعلیمی اور ثقافتی مقابلوں میں حصہ لے کر علاقے کا نام روشن کر رہی ہیں۔ یہاں کے اساتذہ نہایت محنتی، باصلاحیت اور طلبہ کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی رہنمائی اور معاونت سے بچیاں ہر میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں۔واجہ میر اسد اللہ بلوچ نے جس وژن اور خلوص نیت کے ساتھ اس ادارے کو قائم کروایا، وہ لائق تحسین ہے۔ یہ صرف ایک عمارت نہیں بلکہ نسلوں کو سنوارنے کا ایک ذریعہ ہے۔ خدابادان کے لوگوں کے لیے یہ کالج صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک خواب کی تعبیر ہے۔ واجہ میر اسد اللہ بلوچ نے یہ ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو اور مقصد عوام کی خدمت ہو تو وسائل کی کمی کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔مقامی لوگوں کی زبانی یہ بات سننے کو ملی کہ "ہماری بچیوں کو جب اپنے گھر کے قریب ایسا ادارہ ملا جہاں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، تو ہمارے دلوں سے ایک بڑا بوجھ اتر گیا۔ ہم واجہ میر اسد اللہ بلوچ کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری بیٹیوں کے لیے یہ موقع فراہم کیا۔کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ نے بھی ادارے کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ وہ مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں کہ یہاں تعلیم کا معیار بہتر سے بہتر ہو، اور ہر سال یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کے لیے باعث فخر بنیں۔خدابادان گرلز ڈگری کالج آج ایک نمونہ بن چکا ہے کہ اگر صحیح قیادت میسر ہو تو بلوچستان جیسے دور دراز علاقے میں بھی تعلیمی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ یہ ادارہ اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم صرف ایک فرد یا خاندان کی ترقی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی فلاح کا سبب بنتی ہے۔آج جب ہم اس ادارے کی کامیابیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو واجہ میر اسد اللہ بلوچ کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی سوچ، وژن اور خدمت کے جذبے نے خدابادان کے تعلیمی منظرنامے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ان کے اس کارنامے کو تاریخ بلوچستان میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔یہ کالج ان بچیوں کی امید ہے، ان کے خوابوں کا محور ہے، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن راستہ ہے۔ واجہ میر اسد اللہ بلوچ کا یہ تحفہ آنے والے وقتوں میں بھی روشنی بکھیرتا رہے گا۔
میں ان بزرگ والدین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ راجی راہشون فرزند بلوچستان واجہ میر اسد اللہ بلوچ کے لئے دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ راجی راہشون کے صحت اور زندگی برکت عطا فرمائے ۔ جو اپنے بچیوں کو پنجگور کے پہلے اور واحد گرلز ڈگری کالج چتکان میں مہنگائی کی وجہ سے تعلیم دلا نہیں سکتے تھے کیونکہ وہاں آنے اور جانے کیلئے ٹیکسیاں ماہانہ 3 ہزار سے اوپر کرایہ لیتے تھے ۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے راجی راہشون نے خدابادان کے سینے میں ایک تاریخی اور اہم تعلیمی ادارے بنام گرلز ڈگری کالج خدابادان کا عملی قیام کیا ہے ۔ جس سے سینکڑوں کی تعداد میں بچیاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور بہت بچیوں نے یہاں بی ایس سی اور بی اے مکمل کرکے ڈگریاں حاصل کیں ہیں ۔ میں ان تمام بزرگ والدین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہر وقت ایسے عظیم وژنری لیڈر کیلئے ہر وقت دعا کریں ۔ ہماری بدقسمتی یہی ہیکہ جب کوئی بندہ اپنی زندگی میں لوگوں کی بلائی اور اچھائی کیلئے کام کرتا ہے تو ہم اس کو قدر نہیں دیتے ہیں ۔ جب وہ دنیا سے رحلت کرتا ہیں تو ہم تعزیتی اور تعریفی بیانات دیتے ہیں ۔