*بلوچستان میں پشتون بلوچ قومی برابری چاہتے ہیں، وسائل کی لوٹ مار عوام سے دشمنی ہے، نواب ایاز جوگیزئی*
*کوئٹہ (بی این سی نیوز) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہا ہے کہ ہم پشتون ایک غنی قوم اور ہمارے وطن میں موجود وسائل کے مالک ہوتے ہوئے بھی بدحالی دربدری کے شکار ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی جانب سے ہمارے وسائل پر قبضے اور اس کی لوٹ کھسوٹ کی ناروا اور پشتونوں کے ساتھ جاری انسان دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم تب تک سیال اور برابر نہیں ہوسکتے جب تک ہم زئی و خیلی کی گمراہ کرنے والے نعروں اور تقسیم در تقسیم رہنے کی حالت کو قومی سیاسی تحریک کے ذریعے ایک منظم تحریک میں نہیں بدلیں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارٹی ضلع کوئٹہ کے زیر اہتمام ملک نانک ناصر کے مہمان خانہ میں بلیلی علاقائی یونٹ کے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جس سے صوبائی آفس سیکرٹری ملک عمر کاکڑ،صوبائی ڈپٹی سیکرٹری ذاکر حسین کاسی، محمد دین لالا، حاجی گلاب سلیمانخیل، عبدالرحمن افغانی، ولی وطن پال نے بھی خطاب کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض اسلم خلجی نے سرانجام دیئے۔ مقررین نے کہا کہ خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی نے پشتون قومی تحریک کی بنیاد اس لیے رکھی کہ قومی سوال اور قومی سیاسی نظریے کے تحت ہمیں متحد کرکے اپنی قومی وسائل پر سیاسی واک و اختیار دلائے۔ اگر ہمارے اکابرین خان شہید کی سیاسی جدوجھد سے وابستہ ہوجاتے تو آج ہم اپنے حالت کو تبدیل کر چکے ہوتے۔انہوں نے کہا کہ اب ہماری نوجوان نسل نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے اپنی قوم کو غلامی اور نابرابری سے آزاد کرانا ہے یہ تب ممکن ہے جب پاکستان میں پشتون اپنی قومی تشخص، وسائل پر واک و اختیار کا مالک بنے اور ملک میں آئین کی بالادستی اور ون مین ون ووٹ کے ذریعے منتخب پارلیمنٹ کی حکمرانی ہو اور ملک کی آزاد خارجہ اور داخلہ پالیسی پشتون اور دیگر اقوام کی منتخب نمائندہ پارلیمنٹ سے ہو اور سیاست میں مداخلت نہ ہو ہر ادارہ اپنی آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اربوں کے قرضوں میں سے نہ پشتونخوا وطن میں ایک فٹ موٹروے بنی ہے اور نہ کوئی میگا پروجیکٹ تو ہم کیوں ناکردہ گناہ کی پاداش میں ان عالمی استعماری قرضوں کو مہنگائی اور گرانی کی شکل میں ادا کرے؟انہوں نے کہا کہ ہمارے گورنمنٹ کی دور کی مانگی ڈیم پراجیکٹ کوئٹہ کے عوام کو پانی دینے کیلئے بنائی گئی مگر اب دکھائی دے رہا ہے کہ یہ پانی ڈی ایچ اے کو دلائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم پشتون قوم دنیا کے غنی قوم ہے اور ہمارے آباؤاجداد نے ہماری قومی وسائل پہاڑوں، زمینوں کی ایک ایک فٹ کی دفاع کیلئے اپنی سروں کی قربانیوں سے بچایا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد حکمرانوں نے ہمارے بچوں کو یا تو ہاتھ میں کلاشنکوف دے کر اسے جہاد کے نام اپنے بھائی کو قتل کرنے کا حکم دیا یا پھر اپنی قومی وسائل پر مزدور کی حیثیت سے کام کرکے مفت خور اور غاصب الاٹمنٹ کرنے والوں کی جیبیں بھرنے کا کام لیا جو کہ سب سے بڑی المیہ ہے۔ ہم کبھی بھی اپنی وسائل کو لوٹنے نہیں دینگے بلکہ سیاسی جدوجھد اور سیاسی واک و اختیار کے ذریعے اپنی قومی ترقی کیلئے بروئے کار لائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم پشتون اس دو قومی صوبے میں کبھی بھی دوسرے اور تیسرے درجے کی شہری کی حیثیت سے نہیں رہنا چاہتے۔ یہاں زندگی کی تمام معاملات میں پشتون بلوچ قومی برابری ہو اور یہی فارمولا وفاق میں پشتون اور دیگر اقوام کی قومی برابری کی حیثیت سے ہو تو ہم تیار ورنہ ایکسویں صدی میں غلامی کی زندگی کیلئے پشتون کسی صورت تیار نہیں۔انہوں نے کہا کہ خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی نے اپنی قومی سیاسی تحریک کی بنیاد ایسی رکھی جس میں ہمارے ملا، طالب، ڈاکٹر، خان، ملک اور محنت کش سب شامل ہوکر اپنے قوم کی حالت بدلنے کیلئے جد وجہد کرے۔ خداتعالیٰ خود کہتا ہے کہ میں اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جن کو اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کارکن بلاامتیاز اپنے عوام کی خدمت کیلئے اپنی توانائیاں بروئے کار لائے تاکہ ہم اپنی قومی سیاسی اہداف سے ہوتے ہوئے ترقی یافتہ اور سیال قوم کی حیثیت سے جی سکے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان اور یہ خطہ کسی بھی جنگ کا متحمل نہیں رہ سکتا۔ افغانستان سے ہمارے رشتے تاریخی ہے۔ وہاں پر افغانستان کی استقلال، ارضی تمامیت اور دنیا سمیت ہمسایہ ممالک کی عدم مداخلت ہو تو یہ خطے کی ترقی کا ضامن ہوگا۔ اگر وہاں پر مداخلت ہو تو خطہ اور دنیا کبھی بھی پر امن نہیں رہ سکتی۔ آج بھی دنیا افغانستان پر تھونپے گئے جنگوں کی تاوان دیکر افغانستان کے حکمران ٹول بشمولہ افغان لویہ جرگہ بلاکر عبوری حکومت کے ذریعے جمہوری الیکشن کا انعقاد کرکے افغان عوام اپنی حکومت منتخب کرے اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل افغانستان میں ہمسایوں کی مداخلت کی نگرانی اور روک تھام کو یقینی بنائیں تاکہ عالمی قوانین کی پاسداری ہو اور جنگ زدہ افغان عوام سکھ کا سانس لیں۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو دنیا کے سیال اقوام کی طرح اپنی قومی سیاسی پروگرام سے اپنی لوگوں کی شعور، قومی، سیاسی بیداری کیلئے بروئے کار لائے نہ کہ اسے تقسیم اور جہالت کا ذریعہ بنائے۔*