*2008کے مقابلے میں اس وقت بلوچستان کے حالات بہت بہتر ہیں، میر عبدالقدوس
بزنجو*
*کوئٹہ:وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور برطانوی ہائی کمشنرڈاکٹر کرسچئن ٹرنر کے مابین یہاں ہونے والی ملاقات میں بلوچستان کے مختلف شعبوں میں برطانوی تعاون کے فروغ اور سرمایہ کاری میں اضافے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے فیصلہ کیاگیا ہے کہ بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈاوربرطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر ٹریڈکے درمیان روابط کو فروغ دیکر ان امور کو حتمی شکل دی جائے گی۔ صوبائی وزراء نور محمد دمڑ، سردار عبدالرحمن کھیتران اور سید احسان شاہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزراء کی جانب سے بلوچستان میں سرمایہ کاری کے مواقعوں اور باہمی تعاون کے فروغ کے شعبوں کی نشاندہی کی گئی اور بتایاگیا کہ صوبے میں بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ صوبائی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے جس کیلئے سرمایہ کارو ں کو پر امن اور سازگار ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایاگیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے برطانوی ہائی کمشنر کو دیگر امور کے علاوہ ریکوڈک منصوبے پر ہونے والی پیشرفت سے بھی آگاہ کیاگیا۔ برطانوی ہائی کمشنر نے ریکوڈک منصوبے پر وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی حکومت کی جر ت مندانہ موقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک منصوبے پر کام کے دوبارہ آغاز سے بیرونی سرمایہ کاروں کا بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے اعتماد مضبوط ہوگا اور وہ اس جانب راغب ہوسکیں گے جن میں برطانوی کمپنیاں بھی شامل ہوں گی اور آج کی اس ملاقات کے حوالے سے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر ٹریڈ کے توسط سے برطانوی سرمایہ کاروں کو بلوچستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کے امکانات اور مواقعوں سے آگاہ کیا جائے گا۔ برطانوی ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تاریخی روابط ہیں جن پر ہم فخر کرتے ہیں اور ایک خودمختار پاکستان کے ساتھ باہمی تعاون کے فروغ میں اضافہ ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو ڈی ایف آئی ڈی اور یو کے ایڈکے تحت تعلیم، صحت،ماحولیاتی تبدیلی، تعلیمی وظائف، بچیوں کی تعلیم اور ماں اور بچے کی صحت کے شعبوں میں تعاون فراہم کیا جارہا ہے جبکہ برطانیہ کی دو سو سے زائد کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ انہوں نے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کو قابل اطمینان قراردیتے ہوئے باہمی تعاون کے فروغ اور سرمایہ کاری میں اضافے میں گہری دلچسپی کے اظہار کیا۔انہوں نے یقین دلایا کہ ایک پرامن خوشحال اور ترقیافتہ بلو چستان کے لئے صحت، تعلیم، ماحولیاتی تبدیلی، زراعت، لائیو سٹاک، ماہی گیری اور معدنیات کے شعبوں میں استعداد کار میں اضافہ اور سروس ڈیلوری سسٹم کی بہتری کے منصوبوں کوبرطانوی امدادی پروگراموں میں شامل کیا جائے گاجبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ،بی او ٹی اور بزنس ٹو بزنس موڈ کے تحت بلوچستان میں سرمایہ کاری کے فروغ میں معاونت فراہم کی جائے گی۔ ملاقات میں افغانستان کی صورتحال اور اس کے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان پر پڑنے والے اثرات پر بھی بات چیت کی گئی اور اس امر سے اتفاق کیاگیا کہ افغانستان کی معاشی صورتحال میں استحکام نہ آنے کی صورت میں اس کا براہ راست اثر پاکستان اور بلوچستان پر مرتب ہوگا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ عالمی برادری افغانستان میں معیشت کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرے وزیراعلیٰ نے بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کے حوالے سے پیدا کئے گئے منفی تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 2008کے مقابلے میں اس وقت بلوچستان کے حالات بہت بہتر ہیں کچھ عناصر ملک دشمن قوتوں کی ایماء پر بدامنی پیدا کرنے کیلئے دہشتگردی کی کوشش کرتے ہیں تاہم سیکورٹی ادارے کامیابی کے ساتھ ایسی کاروائیوں کو ناکام بنارہے ہیں اور ان میں ملوث عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نام نہاد علیحدگی پسند تحریک جس میں سینکڑوں بیگناہ لوگوں کو ماراگیا جس سے ان کے خلاف عوام میں نفرت پیدا ہوئی اب یہ تحریک دم توڑ رہی ہے باہر بیٹھے لوگوں سے بات چیت جاری ہے اور وہ جلد واپس آکر قومی دھارے میں شامل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت کے ذریعے ہی مسائل کا حل ممکن ہے بندوق اور طاقت کے ذریعے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے وزیراعلیٰ نے بتایا کہ صوبے میں پارلیمانی نظام مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اور جمہوری نظام تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک وسیع و عریض رقبے پر مشتمل صوبہ ہے جہاں آبادی کم ہے۔صوبے کی طویل ساحلی پٹی اور معدنی وسائل میں سرمایہ کاری کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم تمام اہم امور کو باہمی مشاورت اور اعتماد کی فضاء میں حل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ریکوڈک منصوبے پر بلوچستان کے منتخب نمائندوں کو ان کیمرہ بریفنگ دی گئی جس کا مقصد انہیں اعتماد میں لینا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر قدرتی وسائل کے باوجود بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے جسے ایسی توجہ نہیں ملی جس کی ضرورت تھی جبکہ سی پیک کے پہلے فیز میں بھی بلوچستان کو نظر انداز کیاگیا تاہم ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے وسائل کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لاکر صوبے کی ترقی کیلئے استعمال کیا جائے اور سی پیک کے اگلے فیز میں بلوچستان کیلئے زیادہ سے زیادہ منصوبے لاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہماری طویل سرحد ہے اگر افغانستان میں حالات مستحکم نہیں ہوتے تو اس کے براہ راست اثرات بلوچستان پر مرتب ہونگے اور ہماری سیکورٹی کی صورتحال متاثر ہوگی۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں افغان پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد مقیم ہے جس کے صوبے کے سماجی و معاشی شعبوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ہم مزید پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔برطانوی ہائی کمشنر نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے موقف سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے افغانستان کی صورتحال کی بہتری کیلئے عالمی برادری کے کردار کو ناگزیر قرار دیا۔ بعدازیں وزیراعلیٰ اور برطانوی ہائی کمشنر کے مابین تحائف اور سووینئر کا تبادلہ کیاگیا۔*