BNC OFFICAL WEBSITE

 اب ہل چکے، یہ گرتی ہوئی دیوار ہیں، مولانا فضل الرحمن

 حکمران اب ہل چکے، یہ گرتی ہوئی دیوار ہیں، مولانا فضل


الرحمان

 *لسبیلہ(این این آئی)پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربر اہ و جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ موجودہ حکمرانوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے امن وامان مخدوش ہے قبائل کا انعمام کیا گیا ان قبائل کو کیا دیا بلوچستان میں خونریزی ہو رہی ہے کراچی کے حالات خراب ہو رہے ہیں فاٹا میں امن وامان کی صورتحال گھبیر ہو چکی ہے پھر دعویٰ امن کا کیا جارہا ہے صرف آپریشن کے نام پر باہر سے ڈالر لیئے جارہے ہیں اور کوئی کام نہیں کر رہے اسطرح سے ملک نہیں چلایا جاتا ملک چلانے کیلئے کردار اور عقل کا عمل دخل ہو تا ہے معشیت ہے ہی نہیں خارجہ پالیسی بنارہے ہو آجکل قومی سلامتی پالیسی کا شوشہ چھوڑا گیا ہے جب معیشت ہی ختم ہو تو کس طرح تم قومی سلامتی پالیسی بنا سکتے ہو قوم کو انڈے بکری مرغی کٹے کے خریدوفروخت پر لگا کر معشیت کی بہتری کا کام کیا جارہا ہے کیا ہ ہے ہماری معاشی پالیسی ہر گز نہیں انڈے مرغی بکرے کٹے ریاست کا کام نہیں بلکہ یہ تو ایک شہری دوسری شہری اور دیہات گاؤں میں ہوتا ہے وہ گزشتہ روز حب میں جمعیت علماء اسلام ضلع لسبیلہ کے زیر اہتمام منعقدہ علماء کنونشن سے خطاب کر رہے تھے کنونشن سے جے یو آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری،صوبائی جنرل سیکرٹری ایم این اے آغا محمود شاہ،اپوزیشن لیڈر بلوچستان اسمبلی ملک سکندرایڈوکیٹ،جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکرٹری مولانا راشد محمود سومرو،مرکزی نائب صدر مولانا غلام قادر قاسمی،جے یو آئی بلوچستان کے سپرست اعلیٰ سینیٹر مولانا فیض محمد سمالانی،جامعہ بنوریہ ٹاؤن کے مولانا امداد اللہ،مولانا صبغت اللہ جوگی اور جے یو آئی تحصیل حب کے امیر مولانا شاہ محمد صدیقی و دیگر نے بھی خطاب کیا. مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اللہ پاک نے دین اسلام میں اچھائی اور برائی کا فرق واضح کر رکھا ہے اور جب اقتدار کی بات آتی ہے تو اللہ پاک نے بھلائی کیلئے تحفظ امر کا استعمال کیا ہے اور برائیوں کیلئے نہی کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ حکم دینا کہ کرو اور حکم رہنا کرمت کرو یہ طاقتور قوت کا کام ہے یہ صوفیوں اور تبلیغیوں کا کام نہیں ہوسکتا اسکے لیئے باقاعدہ ایک ملکتی اور طاقتور نظام کی ضرورت ہے انھوں نے کہاکہ وہ لوگ زمانہ جہالت میں رہ رہے ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ دین اسلام 14سو سال پْر نا ہے آج کے زمانے میں فٹ نہیں آتا یہ انگریز کا دیا ہوا درس ہے لہٰذا دین سے انکار لادین قوتو ں کی پیروی کے مترادف ہے انھوں نے کہاکہ آج بھی ہماری بیو کرویسی اسٹیبلشمنٹ اور ہمارا نظام حکومت یہ کہتا ہے کہ سیاست کا دین سے کیا تعلق انھوں نے کہاکی سیاست انبیا ء کرام کا وظیفہ ہے بنی اسرائیل کی سیاست انکے انبیاء کرتے تھے ایک جاتا تھا تو دوسرا اسکی جگہ لیتا تھا اور نبی آخر الزمان حضرت محمدؐکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا انکے بعد آپ کی اْمت یعنی آپ ؐکے خلیفہ ہونگے اور وہی دین کو پھیلانے کا کام کرینگے اور ریاستوں کا نظام چلائیں گے اسلام کی آفافیت عالمگیریت اگر دنیا کو منوانی ہے اور عام مسلمان کو منوانی ہے تو الحمد اللہ وہ جمعیت علماء اسلام ہے،مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ یہاں ایک اور مشکل یہ ہے کہ اسلامی مملکتی نظام کیلئے دو ترجیحات رکھتا ہے ایک یہ کہ عام آدمی کو بھی امن مہیا کرو دوسرا یہ کہ عام آدمی کی معشیت کو نہتر بنایا جائے لوگوں کے انسانی حقوق جان ومال عزت وآبرو کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے انھوں نے کہاکہ اللہ پاک نے اْسے بھی حقوق دینے کا وعدہ کیا ہے جس نے اسکے دین سے انکار کیا لیکن ہم کیا کر رہے ہیں جب انسانی حقوق کی بات آتی ہے تو امریکہ اور مغربی دنیا اسکے دعویدار بن جاتے ہیں اور جب معیشت کی بات آئے گی تو روس اور چین اسکے دعویدار بن جائینگے اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ واقعی امریکہ اور مغربی دنیا انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور واقعی روس اور چین ہی انسانیت کے معاش کیلئے فکر مند ہیں جبکہ ہمارا دین ابراہمی سب سے پہلے ان مقاصد کو پورا کر چکا ہے انھوں نے کہاکہ انسانی حقوق کا نظام بھی اللہ عطا کرتا ہے امن اور سکون خوشحالی معشیت سے منسلک ہے جب معشیت اچھی ہوگی تو معاشرے میں امن قائم ہو سکے گا روزگار میسر ہوگا اور جب لوگوں نے اللہ پاک کی ان نعمتوں کا انکار کیا تو صرف بدامنی آگئی اور بھوک وافلاس بھی مسلط ہو گئے اور آج ہم ان دونوں بیماریوں میں مبتلا ہیں انھوں نے کہاکہ جس ملک کو ہم نے کلمہ پاک کے نام پر حاصل کیا تھا جو نظام امن کی ضمانت دیتا ہے حقوق کا ضامن ہے ہم نے اس سے انکار کیا آج 74سال ہوگئے اسکے مقاصد پورے کرنے سے قاصر رہے ہیں ہم نے مدارس مساجد علماء دین مولوی کا مذاق اْڑیا ہے کیسے راحت آئے گی بڑے سے بڑا سیاستدان جنرنیل بیورو کریٹ کیوں نہ ہو تمام تر اختیارات اسکے ہاتھ میں ہوں لیکن اگر وہ اللہ کے دین کی روح رہنمائی اسکی تعلیمات کو ضروری نہیں سمجھتا وہ ملک کے نظام کی اصلاح نہیں کر سکتا صرف پھنے خان بن کر بیٹھنے سے کیا ہو گا کبھی کوئی جاگیر دار کوئی سردار نواب کوئی بیورو کریٹ بن کر کوئی وردی پہن کر ہم پر رعب کر تا ہے غریب انسان اور معاشرے کی قدر وقیمت نہیں ہے او ر اگر کوئی اللہ کے دین کی رہنمائی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں انہیں آپ حقاریب کی نظر سے دیکھتے ہیں لہٰذا اس نظریئے کے خلاف جمعیت علماء اسلام ایک جنگ کا نام ہے انھوں نے پنڈال میں بیٹھے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ لوگ اس جنگ کیلئے تیار رہو جبکہ نظام کے حامی آپ کو حقار ت کی نظر سے دیکھتے ہیں انھوں نے کہاکہ ہم جمہوری سیاست کرتے ہیں لیکن پاکستان میں جمہوریت کا جو تجربہ ہے وہ بھی ناکام تجربے کے طور پر یش کیا جارہا ہے کہتے ہیں کہ بندوق کے راستے سے ہمیں اسلام نہیں چاہئے تو ٹھیک ہے بندوق نہیں اٹھاتے جب کہتے ہو کہ اسلام جمہوری راستے سے چاہتے تو پھر دو جب سے ملک میں اسمبلیاں بنی ہیں ایک قانون نہیں بنا سکے جو آئین بنا تھا اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہو رہا ہم تو اسی آئین کی بات کر رہے ہیں عبادات سیاست کی دنیا اور دفاع کا نظام یہ تینوں شریعت کے عنوان ہیں انھوں نے کہا کہ لوگ تشکیل حکومت اور نظام حکومت میں فرق نہیں کرتے تشکیل حکومت میں عوام کی مرضی ہے لیکن نظام حکومت میں اللہ کی مرضی کو شامل کرنا پڑتا ہے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ آجکل ہمارا مولوی صاحب کو اگر کوئی طلاق اور نکاح کا مسئلہ پیش ہوجائے تو پھر وہ جائے گا مولوی قمر الدین یا مولانا فیض محمد،مولانا غلام قادر قاسمی کے پاس جائے گا اور مسئلہ کا حل پوچھے گا لیکن اگر کفر کا فتویٰ لگانا ہوتو ہر ایک آدمی کہتا ہے کہ وہ مفتی ہے جو سب سے مشکل فتویٰ ہے اسکے ہر ایک مفتی بنا ہوا ہے آج پاکستان میں ہمیں بھی ہمیں مسئلہ درپیش ہے کہ ہمارے حکمران عوام کی رائے نہیں بنے ہماری ہی شکل و صورت کے مولویوں نے بڑی وکالت کی کہ اب یہ امین ہے اسکی اطاعت واجب ہے انھوں نے نام لیئے بغیر وزیر اعظم عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ امین نہیں ہے وہ دھاندلی سے آیا ہے ناجائز نااہل ہے بدااخلاق ہے نالائق ہے لہٰذا ہم نے اسکی حمایت نہیں کی انھوں نے پنڈال میں بیٹھے لوگوں سے سوال کرتے ہوئے کہاکہ آپ اپنے اندر جھانک کر بتائیں کہ اسطرح کا حکمران عزت غیرت نفس انکو قبول کر سکتا ہے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ یاد رکھیں کہ کسی بھی ملک کی کامیابی خارجہ پالیسی تب مرتب ہوسکتی ہے جب تک اسکی ملک کی معیشت مستحکم ہو جب کوئی ملک معاشی طور پر مستحکم ہوگا دنیا اس سے کاروبار کرنا چاہئے گا اور جب دنیا آپ سے کاروبار کرنا چاہئے گا وہ آپ کی عزت کرے گی آپ سے اچھے تعلقات قائم کرئے گا 70سال بعد چین کے ساتھ ہماری دوستی ہوئی جسے ہم کہتے ہیں یہ یہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند لو ہے سے مضبوط شہید سے میٹھی وہ معاشی دوستی کا عمل دل ہے اچھا ہوا کا شغر سے گوادر تک تجارتی شاہراہ بین الاقوامی شاہراہ ہے پاکستان کے راستے سے گزرتی ہے ہمارے ان حکمرانوں نے اسے بھی تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے کہتا ہے کہ موٹر و ے نہیں ہونی چاہئے موٹر وے تیز ہوتی ہے اس پر ٹائر جلدی خراب ہو جاتے ہیں سڑکوں شاہراہوں کے بننے سے تجارت آسان اور اس میں اضافہ ہوتیا ہے لوگوں کے آمدن میں اضافہ ہوتا ہے نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا ہو اسکا 1947ء تک آج تک پاکستان کے اندر کل نوکریاں ان 74سالوں میں نہیں مل سکیں اور اس نے ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا کوئی تْک بنتا ہے انھوں نے کہاکہ عجیب شے ہے کبھی کہتا ہے پاکستان میں چین تو کھی ایران کے انقلاب اور کبھی امریکہ نظام حکومت کی باتیں کرتا ہے پھر کہتا ہے کہ پاکستان میں ریاست مدینہ کا نظام قائم کرتاہوں انھوں نے کہاکہ اب انکی شکل دیکھیں اور ریاست مدینہ کا نظام دیکھیو کہاں وہ پاک سرزمین اور لوگ اور کہاں یہ نجات کوئی نسبت نہیں بنتی انھوں نے کہاکہ ہمارا ایمان اور غیرت اس قسم کے لوگوں کو حکمران تسلیم نہیں کرتے مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان کا ایک بار پھر نام لیئے بغیر اشارً کہا کہ ہم تمارے ناپاک مقاصد جانتے ہیں کس طرح تم نے آئین سے اسلامی دفعات نکالیں کس طرح ت ناموس رسالت کا قانون ختم کرنے کا ایجنڈہ باہر لایا کس طرح تم ختم نبوت کے عقیدے کو آئین سے نکالنے کا ایجنڈہ باہر سے لیا کس طرح تم نے سی پیک کو ختم کرنے اور ناکام بنانے کا امریکہ سے ایجنڈا لیا انھوں نے کہاکہ اب صورتحال بدل رہی ہے عوام نے ہمت کرنی ہے امریکہ کو اپنے قوت بازو اپنی ٹیکنالوجی پر بڑا ناز ہے 20سال پہلے افغانستان میں آیا او ر کہا کہ وہ تین ماہ میں دہشت گردی ختم کروں گا 20سال بعد دم دبا کر بھاگ گیا اب ایسا شکست خوردہ ملک انسانی حقوق کی بات کرتا ہے انھوں نے کہاکہ انسانی حقوق کا قائل امریکہ انسانی حقوق کے محافظ انسانی حقوق کا دعویٰ کرتا ہے جسکے ہاتھوں سے بھری انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے وہ کہتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا ضامن ہے لہٰذا یہ بات ثابت ہو چکا کہ افغانستان میں شکست کے بعد اب امریکہ دنیا کی سپر طاقت نہیں رہا مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ موجودہ حکمرانوں نے ملک کی معشیت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے امن وامان مخدوش ہے قبائل کا انعمام کیا گیا ان قبائل کو کیا دیا بلوچستان میں خونریزی ہو رہی ہے کراچی کے حالات خراب ہو رہے ہیں فاٹا میں امن وامان کی صورتحال گھبیر ہو چکی ہے پھر دعویٰ امن کا کیا جارہا ہے صرف آپریشن کے نام پر باہر سے ڈالر لیئے جارہے ہیں اور کوئی کام نہیں کر رہے اسطرح سے ملک نہیں چلایا جاتا ملک چلانے کیلئے کردار اور عقل کا عمل دخل ہو تا ہے معشیت ہے ہی نہیں خارجہ پالیسی بنارہے ہو آجکل قومی سلامتی پالیسی کا شوشہ چھوڑا گیا ہے جب معشیت ہی ختم ہو تو کس طرح تم قومی سلامتی پالیسی بنا سکتے ہو قوم کو انڈے بکری مرغی کٹے کے خریدوفروخت پر لگا کر معیشت کی بہتری کا کام کیا جارہا ہے کیا ہ ہے ہماری معاشی پالیسی ہر گز نہیں انڈے مرغی بکرے کٹے ریاست کا کام نہیں بلکہ یہ تو ایک شہری دوسری شہری اور دیہات گاؤں میں ہوتا ہے انھوں نےکہاکہ موجودہ حکومت نے اب تک عوام کودیا کیا ہے اب کہتا ہے کہ اگر مجھے نکالا گیا تو میں باہر سڑکوں پر زیادہ خطرناک ثابت ہو نگا ذرہ عوام کے اندر آؤ تو صحیح پھر دیکھو لوگ آپ کا قومی مجرم کی طرح محاسبہ کرینگے انھوں نے کہاکہ پاکستان کا بڑا مجرم قوم کے سامنے آکر دکھائے باہر کہاں جاؤ گے امریکہ یورپ کیلئے خطرناک بنو گے کس کو ڈرارہے ہو تم ہو کیا چیز کیا پدی اور کیا پدی کا شورہ تھماری حیثیت کیا ہے ہم نے تو پہلے دن ہی تمیں ٹکے کا نہیں سمجھا اور نہ ہی آئندہ بھی ٹکے کا سمجھیں گے انھوں نے کہاکہ جنکی کرسی اپنی تھی انکی کرسی مضبوط ثابت نہ ہوسکی تم تو پھر بھی پرائی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہو انھوں نے کہاکہ میرے بلوچستان کے دوستوں الیکشن ضرور آئیں گے آپ لوگوں کی قربانی اور جدوجہد رائیگاں نہیں جائیں گے انھوں نے کہاکہ بلدیاتی انتخابات میں حال ہی میں KPKمیں حشردیکھ لیا پہلے تجربے میں ہی مارکھائی اور اب مزید کھائیں گے اب بلوچستان میں بھی مار کھائیں گے انھو ں نے کہاکہ مون بزدل نہیں ہوا کرتا لہٰذ احوصلے سے رہنا انھوں نے کہاکہ ہم ڈٹے ہوئے ہیں اب حکمرانوں کی کرسیاں ہل چکی ہیں اب یہ گرتی دیوار ایک دھکے کی منتظر اور انشاء اللہ پورا ملک 23مارچ کو اسلام آباد کی طرف روزانہ ہو گا اور موجودہ حکمرانوں کے خلاف ہمارا جہاد جاری رہے گا اور آنے والے دنوں میں اللہ پاک سے خیر مانگو اللہ سے کامیابی مانگنی ہے اور ایک روشن اور مستحکم پاکستان کیلئے دعا کریں. اس موقع پر جامعہ دارالعلوم بھوانی سے فارغ التحصیل 677 طالبات و طلباء کی دستاربندی کی گئی۔*

Post a Comment

Previous Post Next Post