BNC OFFICAL WEBSITE

ہمیں فرق نہیں پڑتا جام کمال کے بعد کوئی بھی آئے،ہم فیڈریشن کے اندر رہ کر مسائل حل کرینگے، نواب رئیسانی

 ہمیں فرق نہیں پڑتا جام کمال کے بعد کوئی بھی آئے،ہم فیڈریشن کے اندر رہ کر مسائل حل کرینگے، نواب رئیسانی


کوئٹہ:چیف آف سراوان وسابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمداسلم رئیسانی نے کہاہے کہ 18ویں ترمیم نامکمل،آئین پاکستان کی ازسرنوجائزہ لیناوقت کی اہم ضرورت ہے،نئے عمرانی معاہدے کے بغیر ملک میں سیاسی استحکام اور خوشحالی ممکن نہیں ہے،بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ نے مختلف خیال لوگوں کواکھٹا کرکے 12گھنٹے میں باپ پارٹی تشکیل دی جس کا کوئی سیاسی سمت نہیں بلکہ صرف اقتدار تک رسائی ہے ہم نے اپوزیشن لیڈر کو ریکوزیشن کیلئے درخواست دی ہے وہ جب چاہے اسمبلی اجلاس کیلئے ریکوزیشن جمع کرائیں۔وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوں یا نہ ہوں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتابلوچستان میں وزارت اعلیٰ پر براجمان جام کمال چلاجائے تو قدوس بزنجو آئے یا پھر باپ پارٹی سے کوئی اور آجائے گایہ فیڈریشن ہمارا ہے جس کے اندر رہ کر ہم اپنے ساحل وسائل اور اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں حکومت بلوچستان کے ترجمان ایک کنٹریکٹ ملازم ہے ان کو سیاسی لوگوں کے درمیان بات کا کوئی حق نہیں ہے یاپھر باپ پارٹی میں شمولیت اختیار کریں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے آن لائن سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہاکہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوں یا نہ ہوں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو جماعت 12گھنٹے میں تشکیل پائی ہے تو ظاہر ہے کہ اس سیاسی جماعت کا کوئی سیاسی سمت نہیں ہوگا بلکہ صرف اقتدار تک رسائی ہے بلوچستان میں اسٹیبشلمنٹ نے مختلف خیال لوگوں کو اکھٹا کردیاہے پھر جماعت بنی جس کے سرپرست اعلیٰ سعید ہاشمی کوبنایاگیا میں الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا دیکھتاہوں سیاسی بحران ہے مگر یہاں بلوچستان میں مجھے سیاسی بحران نظر نہیں آرہا اس سے بھی بڑے بحران بلوچستان سمیت ملک بھر میں ہیں ان بڑے بحرانوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی بلوچستان میں وزارت اعلیٰ پر براجمان جام کمال چلاجائے تو قدوس بزنجو آئے یا پھر باپ پارٹی سے کوئی اور آجائے گاجس دن میں نے منتخب ہوکر بلوچستان اسمبلی سے حلف اٹھایا اس وقت بھی مجھے دوستوں نے کہاکہ آپ وزیراعلیٰ بنیں گے میرا کوئی خاص شوق نہیں ہے میرا صرف ایک سیاسی مقصد ہے کہ پاکستان 1940ء کے قرارداد کی بنیادپر بناہے اور 1940کی قرارداد میں کسی ریاست کانام اس میں نہیں ہے مگربدقسمتی سے 73سالوں سے اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ حکمرانی کررہاہے وہ بھی یہ نہیں سوچتے کہ 1940ء قرارداد کیاکہتاہے پھرخان میر احمدیار خان مرحوم اور محمدعلی جناح کے درمیان ایک معاہدہ طے پایاتھا جس میں واضح تحریر کیاگیاتھاکہ ریاست قلات کی خودمختاری تسلیم کیاگیاہے وہ دستاویزات میرے پاس موجود ہیں محمدعلی جناح سے اب تک ملک میں بحرانی حالت ہے کوئی ایسا دن نہیں کہ صبح ہم دیکھیں کہ امن وامان قائم ہواہے روزانہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے بلوچ پشتون،سندھی،سرائیکی،چترالی اور پنجابی خود بھی بے چینی سے دوچار ہیں ان سارے مسائل کا حل ریاست پاکستان میں قوموں کے برابری کی بنیاد پر حقوق تسلیم کرنے میں ہے،ہم بلوچ ہماری اپنی ثقافت ہے یہاں پاکستان کے آئین کے بر خلاف تمام ادارے چل رہے ہیں ریاست کی حیثیت ماں جیسی ہے اور برابری کی بنیاد پر حقوق دینا ہوگا میں نے گوادر کو وینٹر کیپٹل ڈکلیئر کیاتھا میری حکومت ختم ہوئی تو گوادر کو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کیاگیا ہم ان حکمرانوں سے زیادہ اس فیڈریشن کے حامی ہے فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق،ساحل وسائل کی بات کرتے ہیں فیڈریشن ہمارا ہے اور کسی کا نہیں ہم حق حکمرانی کی بات کرتے ہیں پنجاب کے پسے ہوئے طبقے کے حقوق کیلئے بھی آواز بلند کرتے ہیں۔پاکستان کے آئین کا از نو جائزہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے اس بات پر بہت سے لوگوں کو تکلیف ہوگی لیکن آئین کی از سر جائزہ لئے بغیر ملک میں سیاسی استحکام اور خوشحالی ممکن نہیں ہے 18ویں ترمیم نامکمل ہے انہوں نے کہاکہ جام کمال بھی ہمارے دوست ہے ظاہرہے 65ارکان پرمشتمل اسمبلی ہے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی ہوتی ہوگی اپوزیشن نے ہمیشہ بہت سے مسائل کی نشاندہی کی ہے حکومت اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں ہم اجلاس نہیں بلا رہے کیونکہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی خود وزیراعلیٰ کا امیدوار ہے جام کمال خود کو بچانے کی کوششوں میں ہے ہم نے اپوزیشن لیڈر کو ریکوزیشن کیلئے درخواست دی ہے وہ جب چاہے اسمبلی اجلاس کیلئے ریکوزیشن جمع کرائیں۔بلوچستان کی عوام اپنے بنیادی حقوق کامطالبہ کررہے ہیں اقتدار کے ممبر کو4ارب روپے ملتے ہیں مجھے 10کروڑ روپے ملتاہے ہم سے ہمارے حلقوں کے ترقیاتی فنڈز میں کٹوتی کی گئی ہے ہم برابری کی بنیاد پر ترقیاتی کام چاہتے ہیں یہ بلوچستان کے عوام کا آئینی وقانونی حق ہے،حکومت بلوچستان کے ترجمان کا سیاسی لوگوں کے درمیان بات کرنے کا توک نہیں اگر وہ سیاسی بات کرتے ہیں تو پھر باپ پارٹی کا حصہ بن جائیں آپ تو کنٹریکٹ پر ہوں لہٰذا ایک کنٹریکٹ ملازم کو سیاسی لوگوں کے درمیان بولنے کا کوئی حق نہیں،متحدہ اپوزیشن نے پی ایس ڈی پی پر عدالت سے بھی رجوع کرکے موقف اختیارکیاکہ عوام کے بنیادی حقوق،پانی،بجلی،گیس ودیگر وسائل دئیے جائیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post