*زبان کی کشش قوم کو یکجا رکھتی ہے ،حاجی لشکری رئیسانی*
*کوئٹہ: سینئر سیاستدان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ زبان کی کشش قوم کو یکجا رکھتی ہے ، ہمیں اپنی تحقیق اور تخلیق کے دائرہ کار کو وسیع کرکے اقوام متحدہ کی جانب سے قومی زبانوں کے معدوم ہونے کے تاثر کو زائل کرنا ہوگا،اگر ہم زندہ ہیں تو ہماری مادری زبانوں کو بھی زندہ رکھنا ہوگا بعض زبانیں قوموں کی عدم سنجیدگی کے باعث زوال کا شکار ہوئیں، یہ با ت انہوںنے مادری زبانوںکے عالمی دن کے موقع پر براہوی اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ مادری زبانوں کا عالمی دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ اپنی تحقیق اور تخلیق کے دائرہ کار کو مزید وسیع کرکے اقوام متحدہ کی قومی زبانوں کے معدوم ہونے کی رائے کو غلط ثابت کریں ، انہوںنے کہا کہ دنیا کی تمام زبانیں ارتقائی عمل کی پیداوار ہیںان میں سے بعض زبانیں قوموں کی عدم سنجیدگی کے باعث زوال کا شکار ہوئی ہیں مگر بعض قوموںنے اپنے عمل سے اپنی زبانوں کو معدوم ہونے سے بچایا ہے، انہوں نے کہا کہ کہا جاتاہے کہ ماری مادری زبانوں بلوچی،براہوی پشتو کے معدوم ہونے کے خطرات لاحق ہیں، اگر ہم اپنی مادری زبانوں سے محبت کرتے ہیںتو اس کی وجوہا ت جاننے کیلئے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے، انہوںنے کہا کہ اپنی زبانوں کومعدوم ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں علمی تحقیق کے دائرہ کار کو مزید وسعت دے کرعلم اور تحقیق پراپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے نئے شاہکار تخلیق کرنے ہوں گے تاکہ باقی دنیا ہماری جانب متوجہ ہونے پر مجبور ہو۔انہوںنے کہا کہ ہمیں اپنی زبانوں کو بے بس نہیں چھوڑنا چائیے اگر ہم زندہ ہیں تو ہماری مادری زبانوں کو بھی زندہ رہنا چائیے، انہوں نے کہا کہ عزت وقار، ثقافت، ناموس سربلندی خیرات میں کوئی نہیں دیتا یہ سب ہمیں خود حاصل کرنا ہوگا، انہوںنے کہا کہ علم ادب وتحقیق میں بہت بڑی طاقت ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے نہ کہ ہم اس بات خوشیاں منائیں کہ ہماری قدیم زبان ہے ،انہوںنے کہا کہ زبان کی کشش قوم کو یکجا رکھتی ہے ہمیںکسی صورت مایوس نہیں ہونا چائیے، انہوں نے ادبی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ اگر وہ چاہتے ہیں قومی زبانوں کو مزید تقویت دی جائے تو انہیں عہدﺅں کی لڑائی کے بجائے یکجا ہوکر مزید تحقیق کرکے نئی تخلیق کرنا ہوگا تاکہ اقوام متحدہ نے قومی زبانوں کے معدوم ہونے کی جو رائے قائم کی ہے اپنے عمل سے اس کو غلط ثابت کریں۔ انہوں نے تجویزدی کہ ادیبوں ، دانشوروں، مصنفوں ، محققین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو تحقیق کرے کہ دنیا میں غیر معروف چھوٹی زبانوں کے لوگوں نے اپنی زبانیں کیسے زندہ رکھی ہیں۔*